
Written by: Muhammad Jawad Habib
Introduction
Women are the foundation of every society and the cornerstone of the family system. After marriage, their responsibilities increase, and they become responsible for the peace, upbringing, and nurturing of the entire family. Unfortunately, in a large democratic country like India, millions of married women still face domestic violence, dowry demands, physical abuse, psychological torture, and sexual harassment. This is not only a violation of human rights but also a grave crisis that disrupts the balance of society, leading to broken families, forced suicides, and children growing up in deprivation.
Domestic Violence and Laws
Domestic violence in India manifests in several forms such as dowry-related demands, physical abuse, verbal insults, financial exploitation, and sexual coercion. The government has enacted several laws to address this issue, including the Domestic Violence Act 2005, the Dowry Prohibition Act 1961, and Section 498A of the Indian Penal Code (IPC). Although these laws theoretically provide protection to women, in practice they have not been very effective. Most women, due to social pressure or lack of awareness, refrain from filing complaints, and many cases end in compromise or are withdrawn under pressure rather than reaching justice.
Islamic Perspective
Islam grants women unparalleled dignity, respect, and protection. The Qur’an commands: “And live with them in kindness” (Qur’an 4:19). The Prophet Muhammad ﷺ said: “The best among you is the one who is best to his wife.” According to Islam, marriage is a means of attaining peace of heart, safeguarding chastity, ensuring the continuation of lineage, and completing one’s faith. Thus, subjecting women to oppression and abuse is not only moral corruption but also a grave sin. Sadly, in Indian society, the sacred institution of marriage has been distorted by the evils of dowry, domestic violence, and exploitation of women.

Suggestions and Conclusion
For the protection of women in India, it is essential to enforce anti-dowry laws strictly, establish women’s protection centers in every district for victims of domestic violence, promote the education and skill development of married women, and launch social awareness campaigns. The government should also develop a transparent digital system to monitor women’s welfare and address their issues effectively. Ultimately, society can only become strong and peaceful when marriage is understood as a bond of love, respect, and tranquility, not as a means of oppression and exploitation. The message of Islam is clear: “Marriage is a bond of love and mercy, not of cruelty and coercion.”
ہندوستان میں شادی شدہ خواتین کا تحفظ اور گھریلو تشدد کے چیلنجز
تحریر : محمد جواد حبیب
خواتین کسی بھی معاشرے کا بنیادی ستون اور خاندانی نظام کی اساس ہیں۔ شادی کے بعد ان کی حیثیت صرف ایک بیوی یا بہو کی نہیں رہتی بلکہ وہ پورے گھر کے سکون اور تربیت کی ذمہ دار قرار پاتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہندوستان جیسے بڑے جمہوری ملک میں آج بھی لاکھوں شادی شدہ خواتین گھریلو تشدد، جہیز کے مطالبات، مارپیٹ اور نفسیاتی اذیتوں کا شکار ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہے بلکہ سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والا ایک سنگین بحران ہے۔
گھریلو تشدد کی صورتیں
ہندوستان میں شادی شدہ خواتین پر گھریلو تشدد مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے:
1. جہیز کا مطالبہ اور جہیز نہ لانے پر تشدد
2. جسمانی اذیتیں اور مارپیٹ
3. زبانی و نفسیاتی تشدد (گالیاں دینا، طعنے دینا، ذلیل کرنا)
4. معاشی استحصال (خرچ نہ دینا یا مالی طور پر محتاج رکھنا)
5. جنسی ہراسانی اور جبر
یہ مظالم کئی مرتبہ عورتوں کی خودکشی، گھریلو قتل اور خاندانوں کے بکھرنے کا سبب بنتے ہیں۔
بھارتی قوانین اور حکومتی اقدامات
ہندوستانی حکومت نے گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے کچھ قوانین بنائے ہیں:
• Domestic Violence Act 2005: جس کے تحت خواتین کو جسمانی، نفسیاتی، جنسی اور مالی تشدد سے قانونی تحفظ دیا گیا۔
• Dowry Prohibition Act 1961: جہیز کے مطالبے کو جرم قرار دیا گیا۔
• Indian Penal Code (IPC) Sec. 498A: شادی شدہ خواتین پر ظلم کرنے والے شوہر یا سسرال کے افراد کو سزا دینے کی دفعات موجود ہیں۔
لیکن عملی طور پر یہ قوانین زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئے کیونکہ اکثر خواتین شکایت درج کروانے سے ڈرتی ہیں یا دباؤ کے تحت مقدمات واپس لے لیتی ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر
اسلام نے عورت کو عزت، وقار اور تحفظ عطا کیا ہے۔ قرآن میں شوہر کو حکم دیا گیا ہے: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ”اور ان کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی گزارو۔”
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہترین ہے۔
اسلامی تعلیمات شادی کو نہ صرف ایک سماجی معاہدہ بلکہ ایک روحانی، نفسیاتی اور اخلاقی ذمہ داری قرار دیتی ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں شادی سکونِ قلب، عفت کی حفاظت، نسلِ انسانی کی بقا اور دین کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں خصوصاً ہندوستان میں شادی کے اس مقدس رشتے کو بعض معاشرتی برائیوں جیسے جہیز، گھریلو تشدد اور خواتین کے استحصال کے ذریعے مسخ کر دیا گیا ہے۔ یہ مقالہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شادی کے مقاصد بیان کرتا ہے اور ہندوستان میں شادی شدہ خواتین پر ہونے والے مظالم کا تجزیہ کرتے ہوئے حکومتِ ہند کے لیے اصلاحی تجاویز پیش کرتا ہے۔
اسلام میں شادی کا مقصد اور فلسفہ
۱۔ سکون اور اطمینان
قرآن کہتا ہے:
“وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا” (الروم ۳۰:۲۱)
یہ آیت بتاتی ہے کہ شادی انسان کو روحانی سکون، ذہنی راحت اور جذباتی توازن عطا کرتی ہے۔
۲۔ نسل کی بقا
اسلام نے اولاد کو انسان کی سعادت قرار دیا ہے (وسائل الشیعہ، ج ۱۵، ص ۹۶) اور بیوی کے انتخاب میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو اہم معیار قرار دیا گیا ہے (وسائل الشیعہ، ج ۱۴، ص ۳۳)۔
۳۔ فطری خواہش کی تکمیل
شادی انسان کی فطری و جنسی خواہشات کی تکمیل کا پاکیزہ ذریعہ ہے۔
۴۔ عفت و پاکدامنی کی حفاظت
نبی اکرمؐ نے فرمایا:
“مَن تزوَّج فقد أحرز نصف دينه”
“جس نے شادی کی، اس نے اپنے دین کا نصف محفوظ کر لیا۔” (سفینة البحار، ج ۱، ص ۵۶۱)
حکومتِ ہند کے لیے تجاویز
ہندوستانی حکومت اگر واقعی شادی شدہ خواتین پر ہونے والے مظالم کو روکنا چاہتی ہے تو درج ذیل اقدامات فوری طور پر کرنے ہوں گے:
1. جہیز مخالف قوانین پر سختی سے عمل درآمد
o جہیز کے خلاف موجودہ قوانین (Dowry Prohibition Act 1961) کو مزید سخت کیا جائے۔
o پولیس اور عدلیہ کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ جہیز کے کیسز کو سنجیدگی سے لیں۔
2. گھریلو تشدد کے متاثرین کے لیے فوری تحفظ مراکز
o ہر ضلع میں “ویمن پروٹیکشن سنٹر” قائم کیے جائیں جہاں متاثرہ خواتین کو عارضی پناہ، قانونی مدد اور نفسیاتی سپورٹ فراہم ہو۔
3. تعلیم اور مالی خودمختاری کو فروغ
o حکومت شادی شدہ خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی و ہنر مندی کے پروگرام شروع کرے۔
o خواتین کو خودکفیل بنانے کے لیے آسان قرض اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
4. سماجی آگاہی مہمات
o جہیز کے خلاف میڈیا اور نصاب میں بھرپور مہم چلائی جائے۔
o مذہبی رہنما، سماجی کارکن اور تعلیمی ادارے اس مہم میں شریک ہوں۔
5. ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور شفافیت
o شادی کے بعد خواتین کی فلاح و بہبود کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے ایک قومی سطح کا ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنایا جائے تاکہ پالیسیوں کو زمینی حقائق کے مطابق بنایا جا سکے۔
نتیجہ
اسلام نے شادی کو سکون، محبت، عزت اور تکامل کا رشتہ قرار دیا ہے۔ لیکن ہندوستان میں موجودہ حالات اس کے برعکس ہیں جہاں خواتین جہیز، گھریلو تشدد اور استحصال کا شکار ہیں۔ اگر حکومتِ ہند فوری اور سخت اقدامات نہ کرے تو نہ صرف خواتین بلکہ پورا معاشرہ تباہی کی طرف بڑھتا رہے گا۔ اسلام کا پیغام بالکل واضح ہے:
“شادی محبت کا رشتہ ہے، ظلم و استحصال کا ذریعہ نہیں۔”