16 مارچ 2025 کو آل لداخ اسٹوڈنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن چندیگڑھ (ALSWAC) کے زیر اہتمام اسلامک سینٹر، موہالی، چندیگڑھ میں ایک شاندار اخلاقی، علمی و فکری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ یہ بامقصد نشست شام 5 بجے سے 8 بجے تک جاری رہی، جس میں مختلف معزز علما اور دانشوروں نے شرکت فرمائی اور نوجوانوں کی فکری و علمی نشوونما کے لیے اپنے قیمتی تجربات اور نصیحتوں سے نوازا۔
یہ مجلس علم، حکمت، روحانیت اور اخلاقیات کا حسین امتزاج تھی، جس نے نوجوانوں کو فکری و روحانی روشنی فراہم کی۔ اس تقریب میں حجت الاسلام والمسلمین آقای مہدوی پور (نمایندہ ولی فقیہ در ہند)، حجت الاسلام والمسلمین سید تقی حیدر نقوی، حجت الاسلام والمسلمین شیخ جواد حبیب، مولانا سید ضیاء عباس اور دیگر ممتاز شخصیات نے شرکت فرمائی۔ اس کے علاوہ، لداخ کے مختلف جامعات کے اساتذہ اور کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات بھی اس علمی محفل کا حصہ بنے۔
اس علمی و فکری نشست کے نظامت کے فرائض جناب ڈاکٹر سلطان نے انجام دیے، جنہوں نے انتہائی عمدہ اور دلنشین انداز میں تقریب کو منظم کیا اور موضوعات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے حاضرین کو مفید گفتگو سے جوڑے رکھا۔
استقبال اور اظہارِ تشکر
تقریب کا باقاعدہ آغاز جناب ادریس (اسٹوڈنٹ یونین کے صدر) کے استقبالیہ خطاب سے ہوا، جس میں انہوں نے تمام مہمانانِ گرامی کو پرجوش خیرمقدم کہا اور اس طرح کی علمی و فکری محافل کے انعقاد کو نوجوانوں کی علمی اور اخلاقی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
بعد ازاں، ڈاکٹر طہٰ نے طلبہ کی جانب سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین آقای مہدوی پور کی بیش بہا خدمات کو سراہا اور ان کی سرپرستی اور رہنمائی پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا:
“ہمیں اپنے محبوب رہبرِ انقلاب اسلامی سے اپنی وابستگی کو مضبوط کرنا چاہیے اور دینی و علمی میدان میں ترقی کے لیے انتھک کوشش کرنی چاہیے۔”
حجت الاسلام والمسلمین آقای مہدوی پور کی بصیرت افروز گفتگو
تقریب کے مہمانِ خصوصی، حجت الاسلام والمسلمین آقای مہدوی پور نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک گرانقدر وصیت کے ساتھ اپنی تقریر کا آغاز کیا اور نوجوانوں کو علم، اخلاق، معنویت، اور جوانی کی قدردانی کی تلقین کی۔ انہوں نے فرمایا:
“لداخ ایک بلند اور بالا خطہ ہے، اور اس کے لوگ بھی بلند فکر کے مالک ہیں۔ یہ علاقہ زرخیز ہے، اور یہاں کے نوجوانوں میں بےپناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ میں آپ سب کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنے علم و تقویٰ کے ذریعے معاشرتی تبدیلی کا ذریعہ بنیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم میں توازن قائم کرنا چاہیے اور اپنے کردار و عمل کے ذریعے دوسروں کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔
شیخ جواد حبیب کا خطاب: علمی و دینی تربیت کی ضرورت
حجت الاسلام والمسلمین شیخ جواد حبیب نے مختصر مگر جامع خطاب کیا، جس میں انہوں نے گزشتہ آٹھ سالوں میں انجام دی گئی علمی و تربیتی خدمات کا ذکر کیا اور نمایندہ ولی فقیہ کی سرپرستی پر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا:
“ہمیں اس علمی اور دینی ماحول کو مزید فروغ دینا چاہیے تاکہ ہمارے نوجوان نہ صرف اپنی ذات کی تعمیر کریں بلکہ سماج میں بھی فکری و روحانی استحکام کا ذریعہ بنیں۔”
طالبات کے ساتھ خصوصی نشست: “اسلام میں خواتین کا مقام”
نمازِ مغربین کے بعد، حجت الاسلام والمسلمین آقای مہدوی پور نے طالبات کے ساتھ ایک خصوصی نشست منعقد کی، جس میں 80 سے زائد یونیورسٹی طالبات نے شرکت کی۔ اس نشست میں اسلام میں خواتین کی حیثیت اور انقلابِ اسلامی سے پہلے اور بعد میں ایرانی خواتین کی علمی و سماجی ترقی پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
انہوں نے بیان فرمایا:
“آج ایران میں خواتین کی تعداد جامعات میں مردوں سے 5 فیصد زیادہ ہے۔ وہ اسلامی اقدار کے ساتھ تعلیمی، فکری، سماجی، سیاسی اور دینی میدانوں میں بھرپور شرکت کر رہی ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں، کسی ایک میدان میں مہارت حاصل کریں، اور اپنے شعبے میں ماہر بنیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے سالوں میں، آپ میں سے ڈاکٹرز، انجینئرز، اور دیگر شعبوں کے ماہرین نکلیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ طالبات کو اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی ذہنی اور علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے اور روشن مستقبل کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی چاہیے۔
اختتامیہ اور دعائیہ کلمات
نشست کے اختتام پر صدرِ مجلس نے حجت الاسلام والمسلمین آقای مہدوی پور اور دیگر معزز مہمانان کا پھر سے شکریہ ادا کیا۔ طلبہ و طالبات نے بھی اپنے روحانی مربی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور ان کی صحت، سلامتی، اور کامیابی کے لیے دعا کی۔
اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر سلطان نے کی، جنہوں نے انتہائی خوبصورت اور مربوط انداز میں اجلاس کو ترتیب دیا اور اسے زیادہ مؤثر اور دلچسپ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ علمی و فکری نشست محبت، اتحاد، علم اور حکمت کی بہترین مثال ثابت ہوئی، جس نے نوجوانوں کے دلوں میں معرفت و بصیرت کے نئے چراغ روشن کیے اور انہیں دین و علم کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلنے کی ترغیب دی۔









































