انقلاب اسلامی کی خصوصیات

1 thought on “انقلاب اسلامی کی خصوصیات”

  1. حوزہ/ انقلاب اسلامی، اپنی منفرد خصوصیات کی بنا پر دنیا کے دیگر انقلابات سے ممتاز ہے اور انقلاب کا ایک نیا مفہوم پیش کرتا ہے۔

    تحریر : محمد جواد حبیب

    حوزہ نیوز ایجنسی | انقلاب اسلامی، اپنی منفرد خصوصیات کی بنا پر دنیا کے دیگر انقلابات سے ممتاز ہے اور انقلاب کا ایک نیا مفہوم پیش کرتا ہے۔ شہید مطہری انقلاب کو یوں بیان کرتے ہیں:

    “انقلاب درحقیقت ایک بغاوت اور سرکشی ہے جو عوام کسی موجودہ نظام کے خلاف، ایک مطلوبہ اور بہتر نظام کے قیام کے لیے کرتے ہیں۔ یعنی انقلاب ایک موجودہ صورتِ حال کے خلاف بغاوت ہے تاکہ ایک نئی اور بہتر صورتِ حال پیدا کی جا سکے۔ پس، انقلاب کی جڑیں دو چیزوں میں پوشیدہ ہیں: ایک، موجودہ نظام سے نارضایتی اور غصہ؛ اور دوسرا، ایک مطلوبہ اور بہتر نظام کا نظریہ۔”

    انقلاب اسلامی کی خصوصیات

    انقلاب اسلامی چند منفرد خصوصیات کا حامل ہے جو اسے دیگر عالمی انقلابات سے ممتاز کرتی ہیں اور انقلاب کے ایک نئے مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔ بانی انقلاب اسلامی کے شایانِ شان جانشین کے مطابق اس کی کچھ اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:

    ۱:ہزار سالہ شیعہ فلسفہ، فقہ اور معارف کا پشتوانہ
    ۲: ہمہ گیر سماجی انقلاب جو انسانوں کی زندگی میں بنیادی تبدیلی لایا
    ۳:ثقافت، عقیدے اور ایمان پر استوار ہونا، انقلاب کے عروج اور اس کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنا
    ۴:ارزشی نقطۂ نظر سے فائدہ اٹھانا اور عالمی و انسانی برائیوں کی اصلاح کو ہدف بنانا
    ۵: الحادی اور استبدادی ثقافت کے بجائے، توحیدی ثقافت کو غالب کرنا
    انقلابی نظم و ضبط کی بنیاد پر تشکیل پانا

    یہی خصوصیات ہیں جو انقلاب اسلامی کو ایک اسلامی اور الٰہی تفسیر عطا کرتی ہیں اور اس کا حقیقی مقصد اسلام کی تجدید اور احیاء ہے، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیں:

    “انقلاب اسلامی، ایک اسلامی اور الٰہی تفسیر ہے۔ ہم انقلاب کو ایک اخلاقی، ثقافتی اور عقیدتی تبدیلی سمجھتے ہیں، جس کے نتیجے میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں تبدیلی آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کے تمام پہلوؤں کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: “إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ” (بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے)۔ جب انسان اپنی برائیوں، کمزوریوں اور بے ایمانی کو ختم کر لیتا ہے، تو اس کی اجتماعی حالت بھی بدل جاتی ہے اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ اس ہمہ گیر تبدیلی کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود کو ایک ذمہ دار فرد سمجھے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کا احساس کرے۔”

    انقلاب اسلامی کی اہمیت:

    کئی دانشوروں نے انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات کا مطالعہ کیا ہے اور مختلف مغربی نظریات کو اس پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق انقلاب اسلامی کے وقوع کی وجوہات میں جدیدیت، بیرونی سازشیں، معیشتی مسائل، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی امور شامل تھے۔ تاہم، اگر انقلاب اسلامی کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ نظریات اس پر پوری طرح لاگو نہیں ہوتے۔

    رہبر معظم انقلاب کے مطابق، انقلاب اسلامی ایک “الٰہی سنت” کے مطابق ایک فطری ضرورت تھی۔

    یہ بات واضح ہے کہ نظامِ کائنات، جو کہ اللہ کی مشیّت اور ارادے کا مظہر ہے، بعض اٹل قوانین اور سنن کا پابند ہے جو نہ تبدیل ہوتے ہیں اور نہ کسی اور چیز سے بدلے جا سکتے ہیں۔ انسان خواہ کچھ بھی چاہے اور طاقتور لوگ اس پر راضی ہوں یا نہ ہوں، یہ سنن الٰہی خود بخود رونما ہوتی ہیں۔ ان سنن میں سے ایک یہ ہے کہ حق ہمیشہ ظاہر ہوگا اور باطل پر غالب آئے گا۔

    اگر کسی زمانے میں اسلامی معاشرہ، جو حق کا مظہر ہے، انحراف کا شکار ہو جائے اور عوام اور حکومتیں دونوں فساد میں مبتلا ہو جائیں، یہاں تک کہ معروف اور منکر، اچھائی اور برائی اور حق اور باطل کی پہچان ختم ہو جائے، تو خدا ایسے اسباب فراہم کرتا ہے کہ خدا پرست اور مؤمن لوگ قیام کریں اور معاشرے کو اصلاح کی راہ پر واپس لائیں۔ عاشورا کا عظیم واقعہ اسی قانونِ الٰہی کی ایک نمایاں مثال ہے۔

    اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیں:

    “مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انقلاب اسلامی، اسلام کے لیے ایک ناگزیر ضرورت تھی۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک حاجت تھی اور دین و احکامِ الٰہی کی حفاظت کے لیے ایک الٰہی سنت تھی۔ انقلاب اسلامی ایک تاریخی واقعہ ہے، نہ کہ محض ایک علاقائی حادثہ۔ ہر انقلاب انسانی جغرافیے میں اسی طرح ہے جیسے زلزلہ یا آتش فشاں قدرتی جغرافیے میں ہوتا ہے۔ زلزلہ اور آتش فشاں، قدرتی توانائیوں کے جمع ہونے اور ان کے پھٹنے سے پیدا ہوتے ہیں، اور انقلاب بھی انسانی سماج میں مختلف قوتوں کے جمع ہونے اور پھٹنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔”

    یہ الٰہی قانون یہی تقاضا کرتا تھا کہ ایران میں یہ عظیم تبدیلی واقع ہو، بادشاہی نظام ختم ہو اور ایک الٰہی و عوامی حکومت قائم ہو۔ یہ ایسا نظام تھا جو روحانی اقدار پر مبنی تھا، جبکہ پوری دنیا مادیّت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ دنیا، جو گناہ، فساد اور بے راہ روی میں ڈوبی ہوئی تھی، ہرگز یہ تصور نہیں کر سکتی تھی کہ خدائی احکام پر مبنی ایک انقلاب رونما ہوگا، لیکن یہ معجزہ ایران میں وقوع پذیر ہوا اور دنیا کے مظلوموں کے لیے امید کی کرن بن گیا۔

    انقلاب اسلامی اور مہدویت:

    انقلاب اسلامی کا سب سے بڑا ہدف الٰہی وعدے کی تکمیل ہے، یعنی اسلام کی مکمل فتح اور مادیّت و الحاد پر الٰہی اقدار کی کامیابی۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اسلام اپنے پیغام کو ایک ایسے زمانے میں پیش کرے جب دین کو فراموش کر دیا گیا تھا اور مادیّت انسانیت پر غالب آ چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ نے اس انقلاب کو ایک برگزیدہ اور صالح بندے کے ذریعے برپا کیا، اور یہ کارنامہ کامیابی سے انجام پایا۔

    چونکہ یہ انقلاب الٰہی سنن کے مطابق وجود میں آیا ہے، اس لیے دنیا کے ظالم اور استکباری قوتیں جتنی بھی رکاوٹیں ڈالیں، اگر ایرانی قوم ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے، تو کوئی طاقت انہیں ان کے مقاصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے رہبر اور عوام نے توحید، معنویت اور دین داری کو اپنے انقلاب کا شعار بنایا ہے، جو درحقیقت امام مہدی (عج) کے عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے۔

    نتیجہ:

    خلاصہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایک فطری، تاریخی اور الٰہی ضرورت کے تحت وقوع پذیر ہوا اور یہی الٰہی اصول اس کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیں:

    “ہمارا انقلاب اور ہماری تحریک اسلامی ہے، اور آج کی دنیا کے لیے ایک عملی نمونہ اور قابلِ تقلید تجربہ بن سکتی ہے۔ ہمارا انقلاب ان الٰہی سنتوں کے عین مطابق ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اور یہ ان مادی نظریات سے مکمل طور پر مختلف ہے جو دنیاوی مکاتبِ فکر پیش کرتے ہیں۔ انقلاب اسلامی کی تمام کامیابیاں، عین ان الٰہی قوانین کے مطابق ہیں جو دنیا کی خلقت میں کارفرما ہیں۔”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top