تحریر محمد جواد حبیب
امام سجاد (ع) نہ صرف صحابی مفسر ابن عباس کے ہم عصر تھے، بلکہ تابعی مفسرین کے ساتھ بھی روابط رکھتے تھے اور ان کی تفسیری کاوشوں پر اثر انداز ہوئے۔اس مقالہ میں اسکا جائزہ لیتے ہیں ۔
امام سجاد (ع) کی سوانح حیات کا مختصر جائزہ:
امام علی بن الحسین (ع) جو سید الساجدین اور زین العابدین کے لقب سے معروف ہیں، امام حسین (ع) کے فرزند ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام سلامہ، شہربانو یا غزاله بیان کیا گیا ہے۔
آپ کی ولادت مدینہ میں ہوئی، اور تاریخ ولادت کو ۳۸ ہجری یا ۳۶ ہجری قرار دیا گیا ہے۔ آپ نے دو سال تک اپنے جد امام علی (ع) کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور ۳۵ سال امامت کے فرائض انجام دیے۔ آپ کی شہادت ۹۵ ہجری میں ہوئی، جبکہ بعض روایات میں ۹۲ یا ۹۴ ہجری بھی بیان کی گئی ہے۔ آپ کو مدینہ کے قبرستان بقیع میں اپنے چچا امام حسن بن علی (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
امام سجاد (ع) کے دور کے مشہور مفسرین:
امام زین العابدین (ع) نے صحابی مفسر ابن عباس کے علاوہ تابعین میں سے متعدد مفسرین کے ساتھ علمی مباحث انجام دیے اور تفسیری علوم کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا۔ تابعی مفسرین میں جن افراد نے امام سے استفادہ کیا، ان میں شامل ہیں:
- سعید بن جبیر – جو بعد کے مفسرین جیسے ضحاک کے استاد رہے۔
- سعید بن مسیب – امام سجاد (ع) نے انہیں گذشتہ آثار کے بہترین عالم اور سب سے فقیہ قرار دیا، جبکہ امام کاظم (ع) نے انہیں امام سجاد کے حواریوں میں سے ایک شمار کیا۔
- طاووس بن کیسان – جو ایک تابعی فقیہ اور مفسر تھے اور امام کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔
- ابان بن تغلب – جو معانی القرآن اور القرائات کے مصنف تھے۔
- ابو حمزہ ثمالی – جو امام سے بکثرت روایات نقل کرنے والے مفسرین میں شامل ہیں۔
قرآنی علوم کی اشاعت میں امام سجاد (ع) کے کردار کے پہلو :
- اہل بیت (ع) کے قرآنی مقام کی وضاحت:
کربلا کے بعد جب اسیران اہل بیت کو دمشق لایا گیا تو ایک شخص نے ان کے حالات کو دیکھ کر کہا کہ “خدا کا شکر کہ اس نے تمہیں قتل کیا اور تمہاری جڑ کاٹ دی!”
اس پر امام سجاد (ع) نے سورہ شوری کی آیت 23 تلاوت فرمائی:
“قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ“
یعنی رسول اللہ (ص) کے اہل بیت کی محبت واجب ہے۔ امام نے اس شخص کو یہ باور کرایا کہ قرآن میں ذوی القربیٰ سے مراد ہم اہل بیت (ع) ہیں۔
اسی طرح امام نے سورہ انفال آیت 41 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ “ذی القربیٰ“ یعنی خمس میں اہل بیت (ع) کا حق ہونا قرآن سے ثابت ہے۔
- تفاسیر میں اصلاح اور غلط تفاسیر پر تنقید:
کچھ عراقی مفسرین نے سورہ سبأ آیت 18 کی تفسیر میں “قریہ مبارکہ“ کو مکہ قرار دیا تھا۔
“وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ“
امام سجاد (ع) نے پہلے ان کے استدلال کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ مکہ میں چوری اور بدامنی عام ہے، تو یہ کیسے مبارک شہر ہو سکتا ہے؟
پھر آپ نے وضاحت کی کہ یہاں “قریہ“ سے مراد نیک افراد ہیں، نہ کہ مخصوص جغرافیائی مقامات۔ اور قرآن میں “قریہ” کے افراد کے لیے استعمال کی مثالیں بھی پیش کیں (سورہ طلاق آیت 8، سورہ کہف آیت 59، سورہ یوسف آیت 82)۔
- غلط تفاسیر پر تنقیدی موقف:
امام سجاد (ع) نے مفسرین کے بعض تفسیری دعووں پر بھی سخت رد عمل دیا۔
جب آپ سے کہا گیا کہ عبداللہ ابن عباس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر آیت کے نزول کے مقام و سبب کو جانتا ہے، تو امام نے ان کے علم کو پرکھنے کے لیے چند سوالات رکھے:
- سورہ اسریٰ آیت 72 کا شان نزول کیا ہے؟
- سورہ ہود آیت 34 کا مصداق کون ہے؟
- سورہ آل عمران آیت 200 میں “رابطوا” سے کیا مراد ہے؟
ابن عباس ان سوالات کا جواب نہ دے سکے، تو امام نے وضاحت فرمائی کہ پہلی دو آیات ابن عباس کے والد (عباس) کے بارے میں ہیں جبکہ تیسری آیت امام حسین (ع) اور ان کی نسل کے مرابطین کے متعلق ہے۔
ابن زیاد کے اعتراض پر امام سجاد (ع) کا قرآنی استدلال
جب ابن زیاد نے امام سے کہا کہ “کیا خدا نے علی بن حسین (ع) کو قتل نہیں کیا؟“
تو امام نے جواب دیا:
“میرا بھائی علی بن حسین (ع) لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوا، خدا نے نہیں!”
ابن زیاد نے اصرار کیا کہ ہر موت خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔
اس پر امام نے سورہ زمر آیت 42 کی تلاوت فرمائی:
“اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا“
یعنی خدا روحوں کو قبض کرتا ہے، لیکن یہ مطلب نہیں کہ قاتلوں کے جرم کو نظر انداز کر دیا جائے!
نتیجہ :
امام سجاد (ع) نے اپنی علمی بصیرت سے قرآن کے حقیقی معارف کی ترویج کی اور غلط تفاسیر کی اصلاح کی۔ آپ کی روشنی میں قرآن کا صحیح فہم حاصل کرنے والے تابعی اور بعد کے مفسرین نے اسلامی علوم کو آگے بڑھایا۔