’وحدتِ امت‘‘ کانفرنس – بین المسالک ہم آہنگی کی ایک شاندار مثال

تحریر محمد جواد حبیب

23 جنوری 2025 کو جموں میں ایک شاندار وحدتِ امت کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں سنی اور شیعہ برادریوں کے ممتاز علماء، دانشوروں اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ یہ تاریخی کانفرنس شیعہ فیڈریشن جموں کے زیرِ اہتمام منعقد کی گئی، جس کا مقصد امتِ مسلمہ میں بھائی چارے، ہم آہنگی اور یکجہتی کو فروغ دینا تھا۔

یہ اجتماع نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ پورے خطے کے مسلمانوں کے لیے بین المسالک ہم آہنگی کی ایک درخشاں مثال ثابت ہوا، جس میں اتحادِ بین المسلمین کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور امت کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کانفرنس نے مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کے علماء اور عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے باہمی افہام و تفہیم اور محبت کے جذبات کو فروغ دیا۔

مقام اور شرکاء

یہ عظیم الشان کانفرنس جامع مسجد امام رضا (ع)، جموں میں منعقد ہوئی، جہاں ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں نہ صرف جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے علماء اور دانشوروں نے شرکت کی بلکہ کرگل، لدّاخ اور دیگر خطوں سے بھی علمائے کرام اور اہلِ دانش شریک ہوئے۔

کانفرنس میں شرکت کرنے والی چند اہم شخصیات درج ذیل ہیں:

  1. جناب فدا حسین صاحب – معروف سماجی اور مذہبی شخصیت
  2. جناب عاشق حسین صاحب – نامور سماجی اور مذہی شخصیت
  3. لال دین میر صاحب – قابلِ احترام سماجی رہنما
  4. فردوس صاحب – مشہور سماجی کارکن
  5. مولانا زوار صاحب – امام جمعہ و جماعت جامع مسجد امام رضا علیہ السلام جامو
  6. مولانا اقبال حسین میر – معروف  عالم دین
  7. مولانا بشیر احمد بوٹو – معروف عالم دین

یہ تمام شخصیات عرصۂ دراز سے امتِ مسلمہ میں ہم آہنگی کے فروغ اور باہمی اتحاد کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان کی شرکت نے اس کانفرنس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا۔

کانفرنس کے مقررین اور ان کے خیالات

کانفرنس میں کئی نامور دینی علماء اور دانشوروں نے نہایت جامع، مدلل اور بصیرت افروز تقاریر کیں۔ مقررین نے قرآنِ مجید کی آیات، احادیثِ مبارکہ، تاریخی واقعات اور عصرِ حاضر کے تناظر میں امتِ مسلمہ کی وحدت اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

نمایاں مقررین:

  1. مولانا حبیب الرحمن – امام، سنی مسجد، جموں
  2. مولانا شیخ منظور – مدیر شھید مطہری فکری ثقافتی مرکز کشمیر
  3. مولانا جواد حبیب – معروف مذہبی اسکالر

خطابات کے کلیدی نکات:

مقررین نے اپنے خطابات میں درج ذیل اہم موضوعات پر روشنی ڈالی:

  • موجودہ دور میں اسلامی وحدت کی ضرورت
    مقررین نے امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز، فتنوں اور تفرقے کے اسباب پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو وہ نہ صرف اپنے داخلی مسائل حل کر سکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مضبوط اور مؤثر قوت بن سکتے ہیں۔
  • سنی و شیعہ مسلمانوں کی مشترکہ اقدار
    مقررین نے واضح کیا کہ سنی اور شیعہ مسلمانوں میں جو مشترکات ہیں، وہ اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں۔ عقائد، عبادات، دین کی بنیادی تعلیمات اور تاریخی اسباق کی روشنی میں یہ ثابت کیا گیا کہ مسلمانوں کو اتحاد کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے۔
  • فرقہ واریت اور انتشار کے خطرات
    مقررین نے امتِ مسلمہ کے اندرونی انتشار اور فرقہ واریت کے خطرناک نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگر مسلمان آپس میں دست و گریباں رہیں گے تو دشمنانِ اسلام کو مسلمانوں کو کمزور کرنے کا موقع ملے گا۔
  • امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادات
    مقررین نے یہ بات بھی واضح کی کہ اسلامی دنیا کو درپیش چیلنجز، جیسے کہ اسلاموفوبیا، ، اقتصادی مشکلات اور مغربی دنیا کے منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ صرف اتحاد سے کیا جا سکتا ہے۔

عوامی ردِ عمل اور کانفرنس کی کامیابی

یہ کانفرنس ہر لحاظ سے ایک کامیاب اجتماع ثابت ہوئی، جس نے جموں و کشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

  • شرکاء کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کی گواہ ہے کہ عوامی سطح پر بھی اتحادِ امت کا شدید جذبہ موجود ہے۔
  • مقررین کی تقاریر نے لوگوں کو نہایت مثبت پیغام دیا اور اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر محبت، اخوت اور بھائی چارے کو اپنانے کی تلقین کی۔
  • سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر بھی کانفرنس کی بازگشت سنائی دی اور امت کے اتحاد کے حق میں ایک نیا شعور اجاگر ہوا۔

نتائج اور مستقبل کے لیے تجاویز

یہ کانفرنس ایک مثالی اجتماع ثابت ہوئی، جس کے چند نمایاں اثرات درج ذیل ہو سکتے ہیں:

بین المسالک مکالمے کے نئے دروازے کھلیں گے اور مستقبل میں مزید ایسے پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ ملے گا اور فرقہ واریت کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے گا۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مشترکہ مسائل کے حل پر غور کیا جائے گا اور امت کے اتحاد کے لیے مزید عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کے درمیان علمی، سماجی اور ثقافتی روابط کو مضبوط کیا جائے گا۔

اختتامیہ

“وحدتِ امت” کانفرنس نے یہ ثابت کر دیا کہ امتِ مسلمہ میں اتحاد ممکن ہے، بس باہمی برداشت، رواداری اور یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے اجتماعات مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ اور اجتماعی ترقی کے احساس کو اجاگر کرتے ہیں، جو کہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

یہ کانفرنس اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ:

ہم سب کا دین اسلام ہے، ہمارا قبلہ ایک ہے، ہماری کتاب ایک ہے، ہمارا نبی ایک ہے، اور ہمیں ایک ہو کر رہنا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top